ٹاپ 50 آئل کمپنیز سال میں صرف 5000 ارب امریک ڑالر کماتی ھیں. لیکن کرونا کی وجہ سے ان بے چاروں کے دیوالیہ ھونے کا خدشہ ھے کیونکہ حسب عادت تیل نکال تو لیا پر لینے والا کوئی نہیں، نہ ھی تیل سٹور کرنے کی جگہ. امریکہ جو دنیا کو 19 فیصد تیل دیتا ھے آج تیل 37 ڈالر ھر بیرل کیساتھ دینے کو تیار ھے. واہ میرے رب کی شان، کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایک وباء کے پوٹھنے کے 4 ماہ کے اندر دنیا کو تیل دے کر اس کا خون چوسنے والی یہ کمپنیاں بھی اتنی لاچار ھو جائیں گیں. یاد رھے کہ یہ وہ مافیا ھے جس کا امریکہ اور روس جیسے ممالک میں حکومتیں بننے اور ٹوٹنے میں اھم رول رھا ھے. حتیٰ کہ جنگ عظیم دوم کے بعد بیشتر جنگیں ان کمپنیز کے ایما پر لڑی کئیں. ان نامساعد حالات کے باوجود تیل مافیا سے ھمدردی شائبہ بھی نہیں. اور شاید پہلی دفعہ کچھ وقت کے لئے اس انڈسٹری کا مشکل وقت باقیوں کیلیئے فائدہ مند ثابت ہو.
اگر ھم کرونا سے احسن طریقے سے نپٹ پائے تو تیل کی قیمت میں غیر معمولی کمی سے ھماری معیشت کو صرف فائدہ ھی ھونے کا قوی امکان ھے. اب دیکھنا یہ کہ ھم اپنی عادات بدل پائیں گے یا نہیں.
تیل بیچنے کے لئے پیسہ خرچ کرنے والے لوگ یعنی کنزیومرز کی ضرورت ھے جس کیلئے اشتہار، ٹی وی، کھیل، فلم، فون کے زریعے اور گھر گھر جا کر لوگوں کو قائل کرنا ضروری ھے کہ وہ اسائشوں کو بھی ضروریات کا درجہ دیں اور جو کمائیں وہ بھی بلکہ کریڈٹ کارڈ اور بینک لون لے کر برینڈڈ کمپلیکسز کا مداوا کریں. اب دیکھیں نہ نائیکی کی سیل سے جوتا لیا، نہ دبئی کی جنوری سیل سے شاپنگ کی اور نہ ان گرمیوں انگلینڈ جا پائیں گے تو کیا زندگی اگے نہیں چل پائے گی. حالانکہ صرف زندگی ھی ضروری ھے باقی تو شو بازی، خود ساختہ مقابلہ، دکھاوا اور ریاکاری ھے. ایک نفسیاتی دوڑ اور ایک نہ ختم ھونے والا مقابلہ اپنوں سے، دوستوں سے، ملنے والوں سے غرض ھر کسی سے. اور یوں خواھش کی غلامی نہ جانے ھم سے کیا کچھ کروا جاتی ھے اور نہ چاھتے ھوئے بھی ھم اس گرداب میں پھنستے چلے جاتے ھیں. واصف صاحب نے کیا خوب کہا کہ ڈر خواھش کی پیداوار ھے. اس سے بڑھ کر یہ کہ ڈر پھر ھماری عقل پر حاوی ھو جاتا ھے، غلط فیصلے کرواتا ھے. زندگی میں ڈر اور خوف کے علاوہ تیسرا مسئلہ کوئی اور ھے بھی تو نہیں. تفصیل پھر کبھی.
جتنا ھم خرچ کرتے ھیں اتنا ھی تیل ان تمام انڈسٹریز میں جلتا ھے جس کا پیسہ ھم اس چیز کی قیمت کے عوض ادا کرتے ھیں چاھے وہ انرجی یا فزی ڈرنک ھو یا سینتھیٹک کارپٹ، ھر غیر ضروری چیز کے بننے، ٹرانسپورٹیشن، سٹورج اور بیچنے والے شوروم سب کو چلنے کے لیئے تیل کی ضرورت ھے اور ان مسکین تیل کمپنیوں کے مالکان کا ٹریلینز اف ڈالرز کا محدود کاروبار آپ کے خون پسینے کی کمائی سے دھڑا دھڑ چلتا ھے..
اپنی ضرورت سے زیادہ مال اپنی بے جا ضرورتوں کو بڑھانے کی بجائے مخلوق پر لگانے پر غور کریں.
ایک حقیقی اور مزاحیہ نتیجہ تیل کی منفی قیمت اور اب خریداروں کے ناپید ھونے پر یہ بھی بنتا ھے کہ تیل لینے والے تیل لینا کم کردیں تو تیل دینے والے مفت نہیں بلکہ جیب سے پیسہ دے کر تیل دینے کو تیار ھو جاتے ھیں.
اتنا تیل ویسے لینے کی کیا آخر پڑی ھے؟ کیوں ھم اس موٹر سائیکل اور گاڑی کو بھگا بھگا کر خوش ھوتےھیں؟
موجودہ حالات میں بھی تو تیل لیئے بنا ھم زندہ ھیں. خواھشات حسب سابق پوری نہ ھونے کے باوجود کام تو چل رھا ھے.
اللہ سب کو آسانیاں عطا فرمائے. آمین
Valuable information. Great 👍
ReplyDeleteTusi great o shah ji
ReplyDeleteVery well said sir, now all the more reasons to believe that this virus is not man made
ReplyDeleteVery well written piece. Enjoyed reading it.
ReplyDelete