Friday, 18 March 2022

موجودہ سیاسی ہیجان کا حل

 ایک ہفتے سے غصے کے مارے برا حال تھا کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔  باہر نکل جاؤں اور چیخ چیخ کر لوگوں کو بتاؤں کہ بہت بڑا ظلم ہونے جارہا ہے۔ پھر خیال آتا اتنے سالوں سے قلم سے اپنے لوگوں کی خدمت کی کچھ لکھوں ایسا کہ بات بن جائے۔ شروع کرتا پھر رک جاتا۔ کبھی انگریزی کبھی اردو،کتنی ادھوری تحریریں رہ گئیں یہ سوچ کر کہ "اقراء" کا امر بھی لوگ بھول چکے ہیں جب سے چرب زبان میڈیا اور VLog سننے کو ملے۔ آج کل کون پڑھتا ہےلکھا ہوا۔ مایوسی اس قدر کہ سوچنے لگا اگر ایک بار پھر ایسا ہوا تو ملک ہی چھوڑ دوں؟ہم ایسے ماحول میں بچے بڑے ہو گئے جہاں کرپشن ایک قابل قبول امر رہا۔ اوپر سے لیکر نیچے تک سب میں مقابلہ تھا کہ کون کتنا مال بنائے گا جیسے بھی بنے۔ 
آج پھر بچوں کو بتانا مشکل ہورہا ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ ہم انہیں کیا درس دے رہے ہیں؟ کیا ضرورت محنت کی یہ دیکھو ملک خداداد میں مبینہ طور پر۲۰ کروڑ کمانا کتنا آسان ہے۔  اگر اپنی قیمت نہ لگا سکے تو کوئی اور راستہ نکال لینا۔ 
اس اضطرابی کیفیت میں کوئی امید بر نہیں آرہی تھی تو میراثی میڈیا نے مسئلے کا حل بتا دیا۔ اور ان کی بات سے استدلال کا طریقہ  بہت آسان ہے۔ جو یہ کہ رہے ہوں اس کا الٹ کرکے دیکھ لیں اسی میں پاکستان کی بہتری ہوتی ہے۔  
دو دن پہلے سندھ ہاؤس میں فاتحانہ انداز میں داخل ہونے والے  اینکر اچانک پی ٹی آئی کے کارکنان کے اسی عمارت پر دھاوا بولنے پر آئین اور قانون کی پاسداری پر چلا اٹھے اور ان کے اس ردعمل میں ہی موجودہ سیاسی مسائل کا نسخہ کیمیا پنہاں تھا۔ یہ لوٹے اپنے پچھلے انتخابات سے دس دس گنا زیادہ ووٹ عمران خان کے نام پر لے کر آئے ہیں۔ زندہ ضمیر کی آواز کا تقاضا تھا کے مردوں کے میدان مستعفی ہوکر اگلا سیاسی لائحہ عمل تشکیل دیتے نہ کہ چوہوں کی طرح سندھ ہاؤس میں دبک کر چند میراثیوں کو بلا کر اعلان کرتے جب بلی تھیلے سے نکلنے کو تیار تھی، جب حکومت کو اپنے ذرائع سے سارے معاملے کا علم ہو چکا تھا۔ 
 جی تو میراثی جو کل تک خوشی کےشادیانے بجا رہے تھےاچانک سندھ ہاؤس پر دھاوے سےمضطرب کیوں ہوئے؟ ان کی اخلاقی حالت کو مدنظر رکھیں تو پنجابی کی  ضرب المثل  ممد ثابت ہوگی،”رب نیڑے کے گھسن”۔ 
اور یہی حل ہے۔ ان کو اور ان کو ہڈی ڈالنے والوں کو پہلے گھسن دکھائیں اور اس سے بھی کام نہ بنے تو ایک آدھ لگا جائیں۔ کیا کہا ! سیاسی ہیجان کا حل مزید ہیجان سے تجویز کررہا ہوں اور لوگوں کو انار کی پراکسا رہا ہوں؟ جی صد فی صد درست۔ آج اپنے حق کے لیئے نہ بولے، نہ نکلے اور ایک آدھ گھسن نہ رسید کیا تو آئندہ آنی والی نسلیں بھی ہماری طرح ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کڑہتی رہیں گیں اگر ڈرائنگ روم بچ کئے اگر میرا یہ پاک وطن ان راجہ  گدہوں کے خونی وار سہ پائے تو

3 comments: