Friday 24 April 2020

ٹیلی ‏تھان، ‏مولانا ‏اور ‏میڈیا

پچھلی نشست میں وزیراعظم کی پھکی اورسافٹ ویئر اپ ڈیٹ کے بعد ٹیلی تھان میں معروف اینکرز کے اپنےچور سپانسرز کیلیئے درد میں نمایاں کمی نظر آئی.
ھمارے 'معزز'  اینکر مولانا کےشیشہ دکھانے پر تلملا اٹھے بلکہ بھونک اٹھے.تاھم چاند کا تھوکا منہ پر. 
جب جاتی امرا جاتے تھے مولانا ھم نے تب بھی اعتراض نہ کیا اور اب بھی نہیں کررھے.
22اپریل کو جو پھل تین سو میں خریدا وہ آمد رمضان کریم پر آج مورخہ24 اپریل کو پانچ سو کا ھوا.مولانا کو برا بھلا کہنے والو اپنے اندر ایک مرتبہ جھانکو تو سہی. 
البتہ آج ھی نون لیگ والوں کو امام ابو حیفہ رح یاد آئے. اور ان کا قول کہ جب تم کسی عالم کو کسی بادشاہ کے در پر دیکھو تو اس کے علم پر شک کرو۔
اول یہ کہ بھئی ملک سے بھاگنے والوں پر بھی تھوڑا شک کر کے دیکھ لیں اور اللہ استطاعت دے تو تحقیق بھی کر لیں. 
دوسرا یہ ھے کہ ویدیو لنک پر دعوت وعظ و نصیحت و دعا 'در پر حاضری' کے مترادف نہیں ھو سکتی.
تیسرا یہ کہ لوگوں کے منتخب نمائندے عوام کے ملازم ھوتے ھیں بادشاہ نہیں. جنہوں نے بادشاھی کی رسم رکھی وھی بدیس جا کر آباد ھیں چاھے الطاف ھو یا نواز. انشاءاللہ وھیں سے جنت یا جہنم واصل ھونگے.
آخری بات... سیاسی وابستگی انسان کو ذھنی غلام بناتی ھے جبکہ آزاد منش لوگ صرف حق کا پرچار کرتے ھیں.  پوسٹ یا بلاگ جو یوتھیوں کی مرضی کے مطابق نہ تھا تو انہوں نے مجھ پر مریم میڈیا سیل سے پیسے لیکر لکھنے کا الزام تک داغ دیا. بالکل ایسے ھی نونی اپنے جذبات مقدسہ لبریز البریانی مصالحہ کا برملا اظہار کرنے میں تأمل نہیں برتتے.
ان کی ذھنی پسماندگی کا نتیجہ یہ تو ھرگز نہیں بنتا کہ ان کو اور ان کے حواری میڈیا کو آئینہ  دکھانا بند کردیں اور اپنے لوگوں کیساتھ سچ شیئر کرنا بند کردیا جائے 🤔 🤔 🤔

3 comments: