Sunday, 17 May 2020

وبائی ‏و ‏سیاسی ‏قوت ‏مدافعت

 پہلے بھی ایک انٹرنیشل یونیورسٹیوں کے فیلو مائیکرو بائیلوجسٹ سے بات ھوئی اور اس کا بھی یہی کہنا تھا کہ ایشیائی اور افریقی ممالک میں کرونا کا سلو سپرڈ ان کے امیون سسٹم کے وائرس/ بیکٹیریا کے متواتر ایکسپویر سے ھے. یہی وجہ ھے کہ بغیر جوتے کے سخت جاڑے اور گرمی میں کوڑے کے ڈھیر سے کاغذ اور شیشہ جمع کرنے والے بچے ھمارے برگر بچوں سے زیادہ امیون اور سخت جان ھوتے ھیں. اور انگریز کے بچے نرے برائلر کیونکہ وھاں نہ ڈسٹ ھے، نہ دھواں، نہ کوڑا، نہ کوئی بیماری جس کے خلاف لڑ کر جسمانی گڈ بیکٹیریا بیٹل ھاڈنڈ ھو جائیں.
ھمیں فوری طور پر اپنے دیسی اورگینک لائف سٹائل کو اپنانا ھوگا وگرنہ مستقبل کی ایسی وباء سے شاید ھم اتنا بھی نہ مقابلہ کر پائیں جتنا کرونا سے کر پائے.
سیاسی لوگوں کی الزام تراشیوں اور سیاسی جماعتوں کی شعبدہ بازیوں پر ھر گز کان مت دھریں. ان کا دھندہ ھی ایسا ھے کہ بغیر کچھ کئے بہت کچھ ثابت کرنا. البتہ جتنا بھی تھوڑا کام کیا وہ پہلے سے موجود منظم دینی سیاسی جماعتوں یا پھر فلاحی جماعتوں نیں کیا. کسی بھی سیاسی جماعت کا کسی بھی قدرتی آفت میں کوئی عملی حصہ نہیں ھوتا نہ ھو سکتا ھے سوائے تند و تیز سیاسی بیانات کے. اور اب تو سیاسیوں کی چاندی ھوگئی ھے ھر کوئی اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر عوام کے درد سے سرشار 'پرخلوص' وڈیو میسج بھی کرتا جا رھا ھے حتیٰ کہ میرے عزیز دوست اور بچپن کے کلاس فیلو سابق امیدوار برائے صوبائی اسمبلی سلیمان آفتاب نے بھی ایک 'ولولہ انگیز'، حکومت مخالف اور اپنی قیادت کا تعریفی میسج داغ دیا. کیونکہ کرونا کے خلاف محاذ پر گھر بیٹھے  سیاسی جنگ اسی تین نقاطی ایجنڈے پر ھی ھو رھی ھے. البتہ حنا پرویز بٹ نے ارطغرل جیسے عام کردار کو مریم جیسے بڑے لیڈر سے مماثلت قائم کرکے قیادت تعریفی کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے. نتیجتاً صفدر سلطان بھی اپنے 'کردار' کے تعین پرعش عش کر اتھے. اون اے سیریس نوٹ کسی بھی قدرتی آفت میں جتنا تھوڑا بہت ٹٹا پجھا عملی کام کوئی سیاسی جماعت کر پاتی ھے وہ حکمران جماعت ھی ھوتی ھے کیونکہ تمام حکومتی ادارے، وسائل اور فیصلہ سازی پر اس جماعت کا کنٹرول حاصل ھوتا ھے. باقی صرف بیانات پر اکتفا کر تے ہیں کیونکہ کوئی بھی جماعت نہ تو اتنی منظم ھے اور نہ اسے اپنے وسائل لگانے کی کوئی ضرورت ہوتی ہے. جب اگلا الیکشن آئے گا پھر ایک نئے 'بے شرم' ولولے اور جھوٹے وعدے کرنے سارے بے شرم ٹی وی سکرینز، جلسوں حتیٰ کہ آپ کی دھلیز تک پہنچ جائیں گے. ان کے میڈیا کے حواری بھی پیسوں کے عوض ان کی اندھا دھند مارکیٹنگ میں جت جائیں گے اور حکومت انے پر اشتہاروں سے نفع بھی ھو جائے گا. یہ دھندہ ھی ایسا ھے لیکن ھے اورگینک یعنی جھوٹ، ریاکاری، اقرباء پروری اور کرپشن سے بھرپور. اور اتنا امیون ھوچکا ھے ڈھگی کا یہ کلچر کہ مستقبل قریب میں تو اسے کچھ ھوتا دکھائی دے نہیں رھا.
البتہ من حیث القوم اگر ھم نے  اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر زندگی کی راہ پر ڈالنا ھے تو پھر دیسی خوراک اور مقامی بودو باش سے ھی اپنی اصل کو پہچان پائیں گے. تبھی کرونا کا خوف و حراس اور سیاسی دجل و فریب سے چھٹکارا مل پائے گا َ اور تبھی وبائی اور سیاسی وائرس / بیکٹیریا کے خلاف مدافعت بڑھ پائے. 
پورا سچ تو صرف الله ھی جانتا ھے.
مندرجہ دیل وڈیو کلپ ضرور ملاحظہ فرمائیں (گورے کی بات پر موجودہ جنریشنز کا یقین محکم ھی ھے 🙂)
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2853120061451262&id=100002598879215

2 comments: