Monday 17 May 2021

الاقصی ‏- ‏اہمیت ‏کا ‏تاریخی ‏پس ‏منظر ‏


عالم اسلام بالخصوص پاکستان میں ریاست اسرائیل اور یہودیوں کو انتہائی بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ان سے تعلق اور دوستی گناہ کبیرہ خیال کئے جاتے ہیں ۔ 
حضرت اسحاق(بن ابراھیم)علیہ السلام  کے دو بیٹے تھے ۔ محیص اور یعقوب ۔ باپ بڑے بیٹے محیص اور ماں چھوٹے یعنی یعقوب علیہ السلام سے زیادہ محبت کرتی تھی ۔ ایک دن باپ نے بڑے بیٹے سے فرمائش کی کہ انہیں شکار کا گوشت کھلایا جائے ۔ یہ سن کر محیص شکار کی غرض سے جنگل کی طرف چل دیا جبکہ ماں نے یعقوب سے کہا تم جلدی سے بکری ذبح کرکے باپ کو گوشت پیش کرو اور دعائیں لے لو ۔  جب بڑا بیٹا شکار کرکے واپس آیا تو یہ دیکھ کر سخت پریشان اور رنجیدہ ہوا کہ یعقوب ؑنے اس کے آنے سے پہلے ہی والد کو گوشت کھلا دیا ۔ اس بات پر اس کے دل میں بھائی کے خلاف دشمنی پیدا ہوگئی ۔ صورت حال کو بہانپتے ہوئے ماں نے یعقوب کو مشورہ دیا کہ وہ بھائی کے غیض و غضب سے بچنے کے لئے گھر چھوڑ کر اپنے ماموں کے پاس عراق کے شہر حران چلا جائے ۔ چونکہ اس مشورے میں والد کی رائے بھی شامل تھی لہذا یعقوبؑ رات کے پہلے پہر ہی گھر سے نکل گئے ۔ وہ رات اور اگلا دن سفر میں گزارنے کے بعد اگلی رات ایک آبادی کے قریب  کھلی جگہ میں پتھر کو تکیہ بناکر سو گئے ۔ آنکھ لگی تو خواب دیکھا کہ زمین سے آسمان تک ایک سیڑھی لگی ہوئی ہے جس کے ذریعے فرشتے اوپر نیچے آ جا رہے ہیں ۔ اسی اثناء میں اللہ نے آپ سے مخاطب ہوکر کہا (میں تجھکو عنقریب برکت دونگا اور تیری اولاد کو کثیر کردونگا ۔
یہ زمین تیرے لئے کردونگا اور تیرے بعد تیری اولاد کے لئے) 
کہانی بہت طویل اور دلچسپ ہے لہذا یہ جملے یاد رکھئے جو اللہ نے کہے کہ یہ زمین تیرے اور تیری اولاد کے لئے کردونگا ۔ اسی وعدے اور بات کو لیکر بنی اسرائیل ( یہود ) آج تک دعوی کرتے ہیں کہ یہ زمین (فلسطین ) تو خدا نے ہمارے نام کردی ہوئی ہے ۔ اللہ کی طرف سے گفٹ ہے ، لہذا کوئی دوسری قوم ( فلسطینی مسلمان ) کس طرح اس پر اپنا حق جتا سکتی ہے ۔
حضرت یعقوبؑ جب خواب سے بیدار ہوئے تو بہت خوش تھے ۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور منت مانی کہ , جب  بھی میں ، سلامتی کے ساتھ  اپنے والدین کے پاس واپس پہنچا تو اس جگہ ،  جہاں سپنا دیکھا تھا ، اللہ کی عبادت کے لئے ایک گھر تعمیر کرونگا اور اپنے مال کا دسواں حصہ راہ للہ خیرات کردونگا ۔ چنانچہ اس جگہ کوچھوڑنے سے پہلے آپ نے اس پتھر پر ( جسے تکیہ بنا کر سوئے تھے ) تیل مل دیا تاکہ واپس آکر پہچاننے میں آسانی ہو ۔
قصہ کوتاہ حضرت یعقوبؑ اپنے ماموں ” لابان ” کے پاس حران شہر پہنچے ۔ ماموں بہانجے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ سینے سے لگایا اور خوب خاطر تواضع کی ۔ لابان کی دو بیٹیاں تھیں ۔
 بڑی کا نام لیا ( Liya) تھا۔
اور چھوٹی کا راحیل   
چونکہ چھوٹی راحیل بہت حسین و جمیل تھی لہذا یعقوبؑ نے ماموں سے اس کا رشتہ  مانگا ۔ جس پر لابان  نے کہا ، تم 6 سال تک میری بکریاں چراؤ تو میں تمہاری شادی راحیل سے کردونگا ۔ اس وعدے پر یعقوبؑ 6 سال تک ماموں کی بکریاں چراتے رہے ۔ جب مدت مکمل ہوئی تو لابان نے عزیز و اقارب اور دوستوں کو جمع کرکے یعقوبؑ کا نکاح اپنی بیٹی سے کردیا ۔ سہاگ رات جب یعقوبؑ اپنی دلہن کے پاس گئے تو پتہ چلا کہ نکاح راحیل سے نہیں بلکہ بڑی بیٹی  لیا  سے کردیا گیا ہے ۔ صبح ہوئی تو ماموں سے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے ۔ ماموں نے جواب دیا ، ہمارے رواج کے مطابق بڑی بیٹی کے ہوتے ہوئے چھوٹی بیٹی کی شادی نہیں ہوسکتی ۔ لیکن میں نے تو چھوٹی کا ہاتھ مانگا تھا ، یعقوبؑ نے جواب دیا ۔ اس پر لابان نے کہا اگر تمہیں اس سے شادی کرنی ہے تو مزید سات سال میری بکریوں کی دیکھ بھال کرنی ہوگی ۔ یہ سن کر یعقوبؑ نے مزید سات سال ماموں کی بکریاں چرانے کی حامی بھر لی اور جب سات سال مکمل ہوئے تو لابان نے راحیل کی شادی بھی یعقوبؑ سے کردی ۔ ( یاد رہے اس وقت دو بہنوں سے ایک مرد کی شادی ممنوع نہ تھی اور یہ بھی نوٹ کرلیں کہ ہمارے ہاں جو بڑی بیٹیوں کو پہلے بیاہنے کا رواج ہے یہ نیا اور معیوب نہیں بلکہ انبیاء کے دور سے چلا آرہا ہے )
حضرت یعقوبؑ نے راحیل سے شادی کے بعد کچھ وقت ماموں کے پاس گزارا اور پھر مع اھل و عیال اپنے وطن کنعان ( موجودہ فلسطین ) واپس جانے کی اجازت چاہی ۔ یہ سن کر لابان بہت غمگین ہوا کیونکہ اس کی دو بیٹیاں،  بچے اور بھانجا جس نے بیس سال اس کے پاس گزارے ، اب  بچھڑ رہے تھے  ۔ اس نے یعقوبؑ کو مزید رکنے کے لئے کہا مگر انہیں اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ اب واپس اپنے وطن کنعان ( یاد رہے فلسطین کا پرانا نام کنعان تھا ) جاکر , دین اسلام کی تبلیغ کریں لہذا وہ ماموں سے اجازت لیکر واپسی کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔ بھانجے کو رخصت کرتے ہوئے لابان  نے اپنی بیٹیوں کو جہیز کے طور پر بہت ساری بھیڑ بکریاں اور سامان خورد ونوش ساتھ دیا ۔
حضرت یعقوبؑ نے سفر کرتے ہوئے کنعان کے نزدیک پہنچ کر ، ایک ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا جہاں قریب ہی ان کا بھائی محیص رہتا تھا لیکن یعقوبؑ کو اس بات کا علم نہ تھا ۔ گاؤں کے لوگوں نے محیص کو خبر دی کہ ایک قافلہ ، خواتین ، بچوں اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ حران سے کنعان جارہا ہے اور قافلہ سالار کا نام یعقوبؑ ہے ۔ یہ سن کر پہلے تو محیص پریشان اور متعجب ہوا کہ یہ کون لوگ ہیں جو اتنا مال واسباب لیکر یہاں سے گزر رہے ہیں لیکن پھر جلد ہی 20 سال پرانی کہانی یاد آگئی کہ ہو نہ ہو یہ میرا بھائی یعقوبؑ ہے لہذا وہ 400 بھیڑ بکریاں اور کچھ ساتھیوں کو لیکر اس کی طرف چل پڑا ۔ جب یعقوبؑ کو یہ خبر ملی تو بہت غمگین ہوئے  کہ جس بھائی کی وجہ سے مجھے وطن چھوڑنا پڑا ، اگر وہی آرہا ہے تو مجھے پریشان کرے گا مگر عین اسی وقت آسمان سے فرشتے نے آ کر کہا ،  غمگین نہ ہوں اور بھائی کا استقبال کریں ۔ یہ سن کر ان کی ڈھارس بندھی ، اپنے ریوڑ سے کچھ جانور بطور تحفہ لئے اور آگے بڑھ کر بھائی کا استقبال کیا ۔ محیص نے جب اتنی مدت کے بعد بھائی کو دیکھا تو غصہ جاتا رہا ۔ پاس آکر یعقوبؑ کو سینے سے لگالیا اور ساتھ لیجاکر خوب خاطر تواضع کی ۔ حضرت یعقوبؑ چند روز بھائی کی میزبانی میں گزار کر جب آگے بڑھے تو 20 سال پرانے راستوں کو تلاش کرتے ہوئے  یروشلم کے قریب اس مقام تک  پہنچ گئے جہاں انہوں نے بیس سال قبل پتھر کے تکیئے پر سر رکھ کر رات گزاری تھی ۔ انہیں اپنی منت یاد آگئی لہذا  بیٹوں کو ساتھ لیکر اس پتھر کو تلاش کرنا شروع کیا جس پر تیل مل کر گئے تھے ۔ اگرچہ بہت عرصہ گزر چکا تھا لیکن اللہ کی مدد و تائید حاصل تھی اس لئے جلد ہی وہ پتھر تلاش کرلیا اور اپنی مانی ہوئی منت کے مطابق بیٹوں کے ساتھ مل کر وہاں اللہ کا گھر تعمیر کیا ، جسے آج ہم  “بیت المقدس ” کے نام سے جانتے ہیں ۔
 حضرت یعقوب علیہ السلام   کے بعد داؤد علیہ السلام  نے اس عمارت کو دوبارہ تعمیر کرنا شروع کیا اور پھر ان کے بیٹے جناب سلیمان علیہ السلام نے جنات کی مدد سے یہاں ایک عمارت تعمیر کی جسے یہودی ہیکل سلیمانی کے نام سے پکارتے ہیں ۔ یہ عمارت رومیوں اور بابلیوں کے حملوں میں تباہ ہوگئی مگر اس کی ایک دیوار باقی ہے جسے دیوار گریہ کہاجاتا ہے ۔ آپ نے تصویروں میں  یہودیوں کو اکثر اس دیوار کے ساتھ کھڑے ہوکر تورات پڑھتے دیکھا ہوگا ۔ یہودیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار میں عین اس جگہ پر مسجد اقصی تعمیر کی کہ جہاں کبھی ہیکل سلیمانی موجود تھا اس لئے ہمیں جب بھی موقع ملا مسجد اقصی کو گراکر دوبارہ گریٹ ہیکل تعمیر کرینگے ۔
یاد رہے ، حضرت یعقوب کی 2 بیویاں اور 2 باندیاں تھیں ۔  لیا (Liya )اور راحیل ( Raheel ) دو سگی بہنیں اور ماموں کی بیٹیاں جن سے شادی کرکے آپ عراق سے یروشلم واپس جارہے تھے ۔
 باندیوں میں  زلفہ اور بلہا
 ۔ ان سب کے بطن سے پیدا ہونیوالی اولاد کی تفصیل کچھ اسطرح ہے:
الف . پہلی بیوی  لیا  
1۔ رئبون Reuben     بیٹا 
2۔  شمعون   Simeon    “
3۔  لاوی  Levi. . . . . . . “
4۔ یہودہ  Judah . . . . .”
9۔ اسیا کار Issachar….”
10۔ ذبولون Zebulunn  “
11۔ دینا  Dinah………  بیٹی
ب : دوسری بیوی راحیل 
12۔ یوسف Joseph .. بیٹا
13۔ بن یامین Benjamin ۔۔ بیٹا
بلہا باندی
5۔ دان  Dan … بیٹا
6۔  نفتالی  Naphtali … بیٹا
زلفا باندی 
7۔ جاد  jad …. بیٹا
8۔  آشر  Ashir .. بیٹا
کل 12 بیٹے اور ایک بیٹی دینا ہوئی  ۔ ان ہی بارہ بیٹوں سے آگے چل کر بنی اسرائیل کے 12 قبیلے وجود میں آئے ۔ بنی اسرائیل سے مراد ، اسرائیل کی اولاد کیونکہ حضرت یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل تھا جس کا مطلب ہے ،  اللہ کا بندہ لیکن حضرت یعقوب کے ایک بیٹے یہوداہ کے نام کی مناسبت سے انہیں یہودی بھی کہا جاتا ہے ۔
اس قصے کی ابتداء ، دراصل حضرت ابراھیم علیہ السلام   سے ہوتی ہے ، اور وہ اس لئے  کہ   حضرت یعقوب ، اسحاق علیہ  السلام  کے بیٹے اور ابراھیم علیہ السلام کے پوتے ہیں ۔ اس طرح اصلا یہ آل ابراھیم ہیں اور ہم مسلمان ،  ہر نماز میں آل ابراھیم علیہ  السلام پر درود بھیجتے ہیں ۔ لیکن میں نے اسے قصدا حضرت یعقوبؑ سے شروع کیا کیونکہ ان کے والد ، حضرت اسحاقؑ کے جنکشن سے ، آل ابراھیم ، دو حصوں ، بنی اسرائیل اور بنی اسماعیلؑ میں بٹ جاتے ہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں مولوی یہودیوں کو برا بھلا تو کہتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ ہیں کون اور بنی اسماعیل سے ان کا کیا رشتہ ہے ۔
یہ تو آپ جانتے ہونگے کہ حضرت ابراھیم کی دو بیویاں تھیں ۔ پہلی بیوی بی بی سارہ سے اولاد نہ ہونے پر آپ نے فرعون مصر کی بیٹی سیدہ حاجرہ سے دوسری شادی کرلی ، جن کے بطن سے ،  اللہ نے آپ کو حضرت اسماعیل کی شکل میں فرزند عطا کیا ۔ اگرچہ یہ اللہ کا حکم اور ارادہ تھا لیکن بعض مورخین لکھتے ہیں کہ جب دوسری بیوی حاجرہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا  تو دونوں خواتین کے درمیان چپقلش شروع ہوگئی لہذا حضرت ابراھیم علیہ السلام ، بی بی حاجرہ اور نومولود اسماعیل  کو یروشلم سے کوسوں دور وادی ذی زرع مکہ میں صفاء اور مروہ کے مقام پر چھوڑ آئے اور یہی جگہ آج ہمارے حج کا ایک اہم رکن ہے ۔ یعنی اگر آپ بی بی حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ، صفاء اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان 7 چکر نہ لگائیں تو حج اور عمرہ مکمل نہیں ہوتا ۔
بی بی حاجرہ اور حضرت اسماعیل کے مکہ چلے جانے کے بعد اللہ نے بی بی سارہ کو بھی بیٹا
عطا کردیا ،  جس کا نام اسحاق رکھا گیا اور اسی اسحاقؑ کے بیٹے یعقوبؑ کی نسل کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اسحاقؑ اور اسماعیلؑ دو بھائی تھے ۔ چھوٹے بھائی ( اسحاق ؑ)کی نسل ، جو فلسطین میں پھلی پھولی ، بنی اسرائیل کہلائی جس سے دانیالؑ ، یوسفؑ ، 
ایوبؑ ، داؤد ، ایلیا ؑ، سلیمان ؑ، موسیؑ اور عیسی ؑجیسے عالی مرتبت انبیاء نے جنم لیا  جبکہ بڑے بیٹے ( اسماعیلؑ ) کی اولاد سرزمین حجاز ، موجودہ سعودی عرب کی وادی مکہ میں  آل اسماعیل کے نام سے آگے بڑھی ۔ اس طرح رشتے کے لحاظ سے بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل فرسٹ کزن یا سگے چچا زاد بھائی ہیں اور اسی بنی اسماعیل کے ایک قبیلے قریش کی شاخ بنی ھاشم میں ، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا جنم ہوا ۔
اب ہم اس مقام پر آ پہنچے ہیں جہاں آپ کو یہ بات بتانی مقصود ہے  کہ ( عرب ) مسلمانوں اور یہودیوں میں جھگڑے کی اصل وجہ کیا ہے ۔ ذرا سا پیچھے جاکر یاد کریں جب حضرت یعقوب ؑنے ماموں کے گھر جاتے ہوئے راستے میں پتھر پر سر رکھ کر رات گزاری اور وہ سپنا دیکھا جس میں اللہ نے انہیں بشارت دی ،
” کہ میں تجھے برکت دونگا ، تیری اولاد کو کثیر کردونگا ( بڑھا دونگا )
اور یہ زمین تیرے لئے کردونگا اور تیرے بعد تیری اولاد کے لئے “
اس خدائی وعدے کو لیکر یہودی یا بنی اسرائیل یہ دعوی لئے گھوم رہے ہیں کہ اللہ نے تو ہمارے دادا یعقوب بن اسحاق سے برکت کا عہد کیا تھا لہذا بنی اسرائیل سے باہر بالخصوص بنی اسماعیل سے کیسے کوئی نبی آ سکتا ہے  اور یہ زمین ( فلسطین ) تو اس وقت سے ہمارے نام ھبہ  کردی گئی تھی ( Gift )
 لہذا ہم بنی اسماعیل کے نبی ( حضرت محمد صلى الله عليه وسلّم ) کو مانتے ہیں اور نہ ہی ارض فلسطین کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ یہ ہمارے دادا یعقوب کو اللہ نے خود عطا کی ہے ۔
آپ کی آگاہی کے لئے یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بنی اسرائیل ، والدہ اسماعیل علیہ السلام بی بی حاجرہ کو لونڈی   House Maid کا درجہ دیتے ہیں ۔ 
مصر نے ان کے پردادا حضرت ابراھیم علیہ کو لونڈی عطا کی تھی اور لونڈی کبھی مالکن  سارہ ، والدہ اسحاق علیہ  السلام کی ہم مرتبہ نہیں ہوسکتی ۔ ان کا  اپنی کتابوں میں یہ بات لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اسماعیل علیہ السلام  کو لونڈی کا بیٹا ظاہر کر کے ، اپنے دادا حضرت اسحاق علیہ السلام  سے کم تر ثابت کیا جائے ۔
دراصل ہوا یوں کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام  ، تبلیغ اسلام کی وجہ سے عراق کے بادشاہ نمرود کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے اور  تنگ آکر جب  اپنا آبائی وطن  وادی بابل چھوڑنے پرمجبور ہوئے تو اپنی اہلیہ بی بی سارہ کو ( Masopotimia ) لیکر فلسطین کی طرف
نکل پڑے ۔ راستے میں مصر کا ملک آتا تھا ،  وھاں پہنچے تو بادشاہ مصر فرعون کو اس کے کارندوں نے خبر کردی کہ ابراہیم نام کا ایک مسافر آیا ہے جس کے ساتھ اس کی انتہائی حسین و جمیل بیوی بھی ہے ۔ فرعون کا معمول تھا کہ اگر کسی باہر سے آنیوالے شخص کی بیوی خوبصورت ہو تو وہ اسے اپنے پاس رکھ لیتا تھا لہذا اس نے حکم دیا کہ اس عورت کو میرے سامنے پیش کیا جائے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے پاس فرعون کے کارندے اس غرض سے آئے کہ اپنی بیوی سارہ کو بادشاہ کے پاس بھیجو تو انہوں نے اللہ سے دعاء کی کہ اے رب  جس طرح تونے مجھے نمرود کی آگ سے بحفاظت نکالا اسی طرح اس بادشاہ کی بری نیت سے میری پاکباز بیوی سارہ کو محفوظ رکھنا ۔ چونکہ آپ مسافر اور اکیلے تھے لہذا بے بسی کی حالت میں بی بی سارہ کو فرعون کے دربار میں روانہ کردیا ۔ جب  پیغمبر خدا کی بیوی فرعون کے سامنے گئیں تو وہ ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر دیوانہ ہوگیا اور خراب نیت سے ان کی طرف بڑھنے لگا ۔ یہ دیکھ کر بی بی سارہ نے اللہ سے دعاء کی کہ اے مالک میں نے اپنے خاوند کے سوا کسی کو نہیں دیکھا ، مجھے فرعون کے غلط ارادے سے محفوظ رکھنا ۔ جب نمازسے فارغ ہوئیں تو فرعون نے پھر ہاتھ بڑھایا لیکن اس دوران اسے عذاب الہی نے آن لیا ۔ وہ بے ہوش ہوکر گرپڑا ، مورخین لکھتے ہیں ، اس کے منہ سے جھاگ  نکلنے لگی اور قریب تھا کہ وہ مرجاتا ۔ یہ دیکھ کر بی بی سارہ پریشان ہوگئیں کہ اگر یہ مرگیا تو بادشاہ کے قتل کا الزام مجھ پہ عائد ہوگا ۔ انہوں نے پھر اللہ سے دعاء کی کہ اسے ٹھیک کردے ۔ جب وہ ٹھیک ہوگیا تو اس نے دوبارہ وہی حرکت کی اور بی بی سارہ کو دوبارہ دعاء کرنا پڑی ۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ زمین نے اسے دبوچ لیا جب دو دفعہ عذاب سے گزرا تو اسے یقین ہوگیا کہ یہ عورت انسان نہیں بلکہ جنات میں سے ہے یا اللہ کی ولیہ ہے ۔ اس نے اپنے کارندوں سے کہا ، تم تو کسی جن کو میرے پاس لے آئے ہو ۔ اسے واپس اس کے خاوند کے پاس لےجاؤ ۔ وہ سارہ سلام اللہ کی شخصیت اور کرشمات سے اسقدر متاثر ہوا کہ جاتے ہوئے اس نے اپنی بیٹی حاجرہ انہیں تحفے میں دیدی جسے بی بی سارہ نے حضرت ابراہیم کی خدمت میں پیش کیا اور انہوں  نے اس سے نکاح کرلیا کیونکہ تب تک ان کی کوئی اولاد نہ تھی اور اسطرح  بی بی حاجرہ کے بطن سے اللہ نے حضرت ابراہیم کو پہلا بیٹا عطا کیا جس کا نام اسماعیل رکھا گیا ۔
بنی اسرائیل نے فرعون کی بیٹی حاجرہ کو  قصدا کنیز لکھا ( بحوالہ بائبل )  تاکہ اس کی اولاد یعنی بنی اسماعیل کا مرتبہ کمتر کیا جاسکے ۔
یہ ہے وجہ عناد و نزاع عربوں ( مسلمانوں ) اور یہودیوں کے بیچ ۔ کہ وہ حضرت اسحاق کے علاوہ کسی کو اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی بنی اسرائیل سے باہر کسی کو نبی تسلیم کرتے ہیں ۔ یہودی اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اللہ کے حکم سے جس بیٹے کو قربان کرنا چاہا وہ اسحاق تھے نہ کہ اسماعیل ۔ جیسا کہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔ رہی بات ارض فلسطین کی تو اسے وہ خدا کی طرف سے انعام اور آل یعقوب ( بنی اسرائیل ) ہونے کی وجہ سے اپنی وراثت خیال کرتے ہیں ۔ وراثت سے یاد آیا کہ یہودی ، ہم مسلمانوں اور مسیحيوں کی طرح کسی تبلیغ کے نتیجے میں دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر  یہودی نہیں ہوئے بلکہ ان کا دعوی ہے کہ وہ سب کے سب حضرت یعقوب کی اولاد ہیں اسی لئے انہیں بنی اسرائیل کہا جاتا ہے ۔
 حضرت یعقوب کی وطن واپسی پربیت المقدس کی تعمیر کے بعد وہیں پر حضرت یوسفؑ کی والدہ راحیل کے ہاں دوسرے بیٹے بنیامین کی ولادت ہوئی اور دوران زچگی راحیل کا انتقال ہوگیا ۔   حضرت یعقوبؑ نے اپنی چہیتی بیوی راحیل کو بیت المقدس میں ہی دفن کرکے  ان کے سرہانے نشانی کے طور پر  ایک پتھر گاڑھ دیا جو ابتک موجود ہے ۔
حضرت یعقوب ؑکو اپنی بیوی راحیل سے اسقدر محبت تھی کہ ان کی وفات سے سخت رنجیدہ ہوئے اور بیت المقدس کو چھوڑ کر اپنے والد حضرت اسحاق کے پاس حیبرون( الخلیل شہر)
آگئے ۔ ان کا بڑا بھائی محیص بھی وہاں آگیا اور دونوں بیٹوں کی موجودگی میں حضرت اسحاق  180 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ۔ یاد رہے حضرت ابراہیم اور جناب اسحاق کی قبریں اسی شہر میں ہیں جسے یہودی حیبرون اور مسلمان"الخلیل " کے نام سے پکارتے ہیں ۔ آج بھی یہ جگہ الخلیلی ہی کے نام سے فلسطین میں موجود ہے۔
حضرت یعقوبؑ نے بڑی کٹھن اور دکھ بھری زندگی گزاری ۔ شروع میں بڑے بھائی کے ڈر سے 20 برس تک والدین سے جدا رہے پھر چہیتی بیوی یوسفؑ اور بنیامین کی ماں راحیل داغ مفارقت دے گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دس کے دس بیٹوں نے اپنے سوتیلے بھائیوں  
یوسفؑ  اور بنیامین کو بہت ستایا ۔ چونکہ حضرت یعقوب کو راحیل کے بیٹوں یوسف ؑاور بنیامین سے بہت پیار تھا لہذا ہر وقت انہیں ساتھ رکھتے تھے جس پر باقی دس بیٹے ناراض ہوگئے اور انہوں نے سازش کرکے یوسفؑ کو کنوئیں میں ڈال دیا ۔ یہ الگ بات کہ بعد میں حضرت یوسفؑ مصر پہنچ کر وہاں کے حاکم بنے اور بھائیوں سمیت اپنے والد کو وہاں بلالیا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب حضرت یعقوبؑ مصر گئے تو ان کے ساتھ کنبے کے فقط 93 افراد تھے لیکن بعد میں جب حضرت موسیؑ اسرائیلیوں کو قبطی عیسائیوں کی غلامی سے چھڑا کر واپس یروشلم لائے تو ان کی تعداد 6 لاکھ ستر ہزار تھی ۔
حضرت یعقوبؑ، یوسفؑ کی جدائی میں چالیس سال تک روتے رہے اور بالآخر باپ بیٹا اس وقت ملے جب یوسفؑ والئی مصر تھے ۔ ملاقات کے بعد جناب یعقوبؑ کی بینائی لوٹ آئی اور وہ 24 برس تک بیٹے کے پاس مصر میں مقیم رہے لیکن یوسف کو وصیت کی کہ موت کے بعد میری میت اپنے وطن فلسطین لیجاکر مجھے میرے باپ اسحاقؑ کے قدموں میں دفن کرنا ۔ حضرت یوسفؑ نے باپ کی وصیت کے مطابق ، ان کی وفات کے بعد حضرت یعقوبؑ کی میت ایک صندوق میں بند کرکے فلسطین پہنچائی اور حسب وصیت حضرت اسحاقؑ کے پاس دفن کیا ۔ اس دن سے بنی اسرائیل نے اپنے مردوں( Dead Bodies ) کو صندوق میں بند کرکے دفنانا شروع کردیا اور یہ رسم آج بھی جاری ہے ۔
امید کرتا ہوں یہاں تک آکر آپ بنی اسرائیل کے بارے میں کافی حد تک جان چکے ہونگے ۔ جہاں تک ارض فلسطین اور بیت المقدس پر کنٹرول اور حاکمیت کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ سرزمین ، تین بڑے مذاہب ، اسلام ، مسیحییت اور یہودیت کے نزدیک یکساں تقدیس Holiness/Divinity   کا درجہ رکھتی ہے ۔ سب کے سب اس کا احترام کرتے ہیں اور وہ اس لئے کہ بنی اسرائیل کے تمام انبیاء اسی سرزمین پر آئے اور اکثر یہیں پر محو استراحت ہیں ۔
حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام بھی اسی خطہء ارض پر تشریف لائے ۔ یہیں پر انہیں مصلوب کرنے کی کوشش کی گئی اور یہیں سے اللہ نے انہیں اپنے پاس آسمانوں پر بلالیا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم ان ہی میں سے اور ان ہی اسرائیلیوں کی طرف نبی بناکر بھیجے گئے تھے مگر انہوں نے ان کا انکار کیا اور جن لوگوں نے انہیں اللہ کا سچا نبی تسلیم کرلیا وہ بعد میں مسیحی کہلائے ۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ حضرت عیسی ابن مریم ، بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے اور ان کے تقریبا 575 برس بعد خطہ حجاز ، موجودہ سعودی عرب میں آباد بنی اسرائیل کے کزن قبیلے ،  بنی اسماعیل سے اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفے  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث ہوئے ۔ کزن قبیلے کی اصطلاح سے قطعا متعجب نہ ہوں کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام  کی اولاد سے ہیں جو حضرت یعقوبؑ ( اسرائیل ) کے چچا تھے ۔
یہودیوں اور مسیحیوں کی طرح ہم مسلمانوں کے لئے فلسطین اس لئے مقدس ہے کہ یہ ہمارا قبلہ اول ہے اور قرآن کے مطابق معراج کی شب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ  و آلہ وسلم اسی بیت المقدس سے آسمانوں پر تشریف لے گئے ۔ یہ ہیں وہ بنیادی وجوہات جن کی بناء پر یہ خطہ گزشتہ کئی صدیوں  سے مسلسل کشمکش اور جنگ و جدل میں ہے ۔ جو قوم طاقتور ہوئی اس نے بڑھ کر اس پر قبضہ کرلیا ۔ مسیحی ، یہودی اور مسلمان باری باری کئی مرتبہ اسے فتح کرکے یہاں اپنا اقتدار قائم کرچکے ہیں لیکن ابتک کوئی پائیدار حل سامنے نہیں آسکا اور آج بھی فلسطین دنیا کے سامنے ایک حل طلب مسئلے کے طور پر موجود ہے ۔ یہاں اس طرف بھی اشارہ کردوں کہ اگرچہ یہ سرزمین مسیحیوں کےلئے بھی اتنی ہی پیاری اور مقدس ہے کہ جتنا اسے یہودی اور مسلمان پیار کرتے ہیں لیکن کرسچئین ورلڈ ( امریکہ ، برطانیہ ) نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 1948 میں اسے مسلمانوں (اردن ) سے لیکر یہودیوں کے حوالے کردیا ۔ فلسطین اور وہاں موجود مقامات مقدسہ کی مذہبی و حربی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو میری ناقص عقل کے مطابق اس کا واحد حل یہ ہوسکتا ہے کہ بیت المقدس کی حدود کا انتظام و انصرام ،  تینوں مذاہب کی ایک مشترکہ کمیٹی کے حوالے کردیا جائے ورنہ قیامت تک اس پر اقتدار کے لئے خون بہتا رہیگا ۔
Forwarded as received

6 comments:

  1. Mashallah nice research very informative keep it up

    ReplyDelete
  2. Mashallah nice and historical knowledge for our young generation....

    ReplyDelete
  3. Actually this property of past Muslims, those accepted new sharea viz a viz and now presently umat musluma... Alhamdulillah...

    However to solve the war between three religion may be distribute within the three religion for peace in the world and kill fight and save lives of humanity.... G.M

    ReplyDelete
  4. Informative article. Commendable

    ReplyDelete
  5. بہترین اور قابلِ فہم معلومات
    شکریہ

    ReplyDelete