Friday 20 May 2022

غیر سیاسی سیاست

 مئی ۲۰ کےملتان جلسے میں عمران خان ان بی بی کا نام نہ لیتا تو بہتر تھا۔ اخلاقی جواز پر نہیں بلکہ شاید سیاسی بنیاد پراس کافائدہ نونی افلاطون اٹھانے کی ناکام کوشش کریں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسا انہوں مسجد نبوی والے واقعے سے کیا اور منہ کی کھا کر چپ ہو رہے۔ ان سیاسی  مفلسوں کواس وقت محض ایک ایشو درکار تھا جو انہیں مل گیا۔ اب کم از کم ایک ہفتہ تک تمام چینلز اورسوشل میڈیا پر اعلی اخلاقی اقدار کی پامالی کے دروس  لیگی اور ان کے پروردہ پوری قوم کو سنائیں گے کیونکہ اس مرتبہ شہزادی مریم کا نام لے لیا گیا۔ 

منافقت کی معراج تو ہے یا شاید اس سے بھی اگلا درجہ ہم لوگ حاصل کر لیں۔ ایک عورت جو گھریلو نہیں بلکہ سیاسی شخصیت ہے جو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لینا چاہتی ہے وہ جب زبان کھولے آگ اگلے اور جس کا نام لے لے کر وہ الزام، طعنے اور نہ جانے کیا کیا کہتی رہے اور وہ بندہ ایک دفعہ آگے سے کہہ دے کہ ایسا مت کرو میاں ناراض ہو جائے گا تو بس ایک طوفان بپا۔ چور، بھکوڑا اور اشتہاری  باپ بھی لندن سے بیٹھ کر قوم کے اخلاق تباہ ہونے کا درس دینے لگ گیا۔ بھائی ان محترمہ کو بتائیں اپنی منہ کے ساتھ جو بھی انہوں نے آلہ نار باندھ رکھا ہے اسے اتار دیں، شائستہ زبان اختیار کریں۔ نہ کہیں، نہ کچھ سنیں۔ نہیں تو گھر بیٹھ جائیں۔ واپس اسی مقام چلوں گا جہاں سے بات شروع کی تھی کہ اس بی بی کا نام نہ ہی لیں تو بہتر ہے کیونکہ اس وقت نون لیگ والے اتنے بے بس اور مفلس ہیں کہ یہ ٹاپک ہفتہ دس دن چلا لیں گے۔ 

سیاست بس سیاست ہی ہے اور سیاست ہی رہے گی۔اور ہماری سیاست  الامان الحفیظ۔ کیا بتائیں گے ایک دو نسل بعد والوں کو کہ ملک بہتری کی طرف جارہا تھا کہ پروٹوکول نمبر۱۷  نے پروٹوکول  نمبر ۱ کو اقتدار تے اتروا دیا اور جن کو لائے ان کو بھی دو مہینے میں چلتا کیا۔ کیسا کھلواڑ ہے؟ کیسا گورکھ دھندا ہے ؟ پاکستان کا نقصان کون بھرے گا؟ کوئی عدالت جس میں پاکستان ہرجانے کا دعوی کرے؟ کوئی منصف ہے جو جرمانہ کرے؟ کوئی ایسا ادارہ یا طاقت بھی چاہئے اس ملک میں جو مقتدر اعلی سے یہ تو پوچھ سکے کہ اس کامل سیاسی روش کو جسے آپ “غیر سیاسی”ُکہہ کر پتلی گلی سے نکلنا چاہ رہے ہیں کب  ترک کریں گے۔ معاف کریں اس ملک کو اپنا کام ہی سیدھا کر لیں۔ اپنی اکاؤنٹس اور سروس کے محکمے ہی ٹھیک کر لیں۔   بہر حال اس ملک کے اصل مالک اورکشش ثقل کا مرکز یعنی عوام سڑکوں پر آچُکے ہیں اور آرہے ہیں شہر اقتدار۔ ملک کی بہتری اور اپنی رہی سہی عزت اور ادارے کی ناموس کا خیال کرتے ہوئے بالکل غیر سیاسی رہتے ہوئے جیسے پہلے حکومت بدلی ملک میں الیکشن کا اعلان کروائیں  اس سے پہلے کہ ملک کے مالک انتہائی قدم لینے پر مجبور ہو جائیں۔ میں اپنے انتہائی محدود تجربے، تجزئے اور عقل کی بنیاد پر دیکھتا ہوں کہ لوگوں کو آپ اب روک نہیں سکتے جب تک وہ حقیقی آزادی حاصل نہ کر لیں۔  عمران خان کی شخصیت پرستی کے مضمرات سے آگاہ رہنا بھی ضروری ہے  جو یہ کاتب پہلے بھی آپ کی نذر کرتا رہا اور پھر جاری رکھے گا بس ذرا یہ مدعا جو ابھی چل رہا ہے کسی منطقی انجام کو پہنچ جائے۔ 

صرف اللہ ہی پورے سچ سے واقف ہے۔ 

1 comment: