Wednesday 6 April 2022

تلخ استعارے

اس تحریر کی ضرورت کچھ استعارے ہیں امید ہے اس مد میں کچھ غیبی مدد مل جائے۔ ابتدا ٹھیک ہوئی “غیبی مدد” والا پہلا استعارہ تو ٹھیک بیٹھا۔ 
موجودہ سابق حکمران کچھ لوگوں کی نظر میں کم عقل اور کم ماہر سہی، ملک کا کاروبار تو چل رہا تھا۔ جو اعشاریئے دو ماہ قبل تک مناسب دکھ رہے تھے وہ ایسے نیچے گر رہے ہیں جیسے ان کے کاؤنٹر میں کشش ثقل ہی معطل ہو گئی ہے۔ تھوڑی سہی کم از کم عزت سے روٹی کھانے کاڈھنگ آرہا تھا۔ پھٹے کپڑوں اور کشکول چھپاتے لوگ مغیرے سے آشنا ہوتے جا رہے تھے پر گاؤں کے چوہدری کب یہ برداشت کرتے ہیں اور پھر استعمار نے چالیں چلنی شروع کیں اور ان کو ہمیشہ کی طرح حواری بھی مل گئے لیکن ذرا غلامی کی پرتیں تو چیک کریں وقت لگتا ہےانگریزوں کی غلامی سے نکل کر کالے انگریزوں کی غلامی سے نکلنے میں جو ابھی بھی انگریزوں اور ڈالروں کے غلام ہیں۔ ذاتی طور پر ہمالیہ کے قدموں میں اگنے والی  دیسی گندم کی روٹی اور چنار کے سائے میں بیٹھنے کی سعادت نے ہی تو باندھ رکھا ہے اس دھرتی سے۔ اس سے زیادہ کی تو آرزو بھی نہیں۔ 
اب نظریں ترازو والوں پہ لگی ہیں۔ اس داغدار ترازو سے امید لگانا بھی امیدوں کو داغدار کرنے کے مترادف ہے۔   
یہ جو دائیاں مکروہ  بازو  (JUI(F)& TLP )حرکت میں آرہا ہے، یہ بھی تو سیاست کا غیر سیاسی چہرہ اور کسی کا مہرہ ہے۔ سیاسی جماعتیں (روٹی کپڑے اور ووٹ کو عزت دینے والے) لوگوں کو موبلائز  کیوں نہیں کرتیں؟ اچھا !!! اتنے خائن ہیں کہ لوگ ان کے کہنے پر نکلنے کو تیار نہیں۔ اوکے پھر کوئی قومی حکومت ہی بنا لیں ورنہ غیر قومی حکومت بننے کے لیئے حالات سازگار اور راہ ہموار ہوتی جا رہی ہے۔ پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی۔ 
عجیب حالات ہیں  دشمن کیساتھ شیروں کی طرح لڑنے والے بھی بے بس لگ رہے ہیں۔ کریں بھی کیا جب شیر کی کھال پہن کر بھیڑیے ان پر مامور ہو جائیں۔ 
اے اللہ رب العزت ہم اس قابل نہ تھے جو کرم تو نے ہم پر کیا۔ رمضان میں دیئے اس تحفے کی خود ہی حفاظت فرما۔

7 comments: